جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Tuesday 17 June 2014

Hajj Tamattu Masla Talaq E Salasa AUR Gher Ky Muqaliden Ko Jawab

حج تمتع  اور فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث
محمد بن بشار ، غندر ، شعبہ ، حکم، علی بن حسین، مروان بن حکم سے روایت کرتے ہیں۔، انہوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے بارے میں گواہی دیتا ہوں  حضرت عثمانؓ تمتع اور قران سے منع کرتے تھے جب حضرت علی ؓ نے دیکھا تو حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اور لبیک بعمرۃ و حجۃ فرمایا کہ کسی ایک شخص کی بات پر میں نبیﷺ کی سنت کو نہیں چھوڑ سکتا۔ (صحیح بخاری جلد۱ حدیث نمبر۱۴۹۹)
نوٹ:۔ کچھ روایات میں حضرت عمرؓ کا بھی ذکر آیا ہے۔
اعتراض:۔
روافض اور غیرمقلدین اعترا ض کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ حج تمتع سے منع کرتے تھے،  حنفی شافعی مالکی اور حنبلی  اس کے قائل ہیں اور ان کی یہ بات نہیں مانتے اور مسئلہ طلاق یا تراویح  پر ان کی بات مان لیتے ہیں۔
الجواب:۔
حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کا حج تمتع  سے منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان حضرات کے نزدیک افضل اور بہتر بات یہ تھی کہ حج کے سفر میں صرف حج کیا جائے اور عمرے کے لئے مستقلا سفر کیا جائے مگر یہ بات ایسے آدمی کے لئے ہے  جو دو مرتبہ سفر کی استقطاعت   رکھتا ہو۔اگر مان  لیا جائے کہ یہ مسئلہ درست نہ تھا تو ہم نے  حضرت عمرؓ اور عثمانؓ کا رد ہرگز نہیں کیا  نہ ہم میں ان کا رد کرنے کی ہمت ہے، ان کا (اجتہادی رد) خود دیگر صحابہ کرامؓ نے کیا۔معلوم ہوا کہ ایسے مسائل جو غیرمقلد ین ہمارے دلائل کے خلاف پیش کرتے ہیں ان کا رد خود صحابہؓ نے کر رکھا ہوتا ہے ، اور جو مسائل ہم غیرمقلدین کے خلاف پیش کرتے ہیں اس میں کسی صحابی نے نہیں بلکہ خود  نام نہاد اہلحدیثوں نے صحابہ ؓ کا رد کر رکھا ہوتا ہے۔
ہمارا سوال  ہے غیرمقلدین سے کہ  آپ   حج تمتع کو اپنی دلیل بنانے سے کیا بتانا چاہتے ہیں کہ جس طرح ہم(اہلحدیثوں نے) صحابہؓ کے اجماعی فیصلہ نہیں مان رکھے اسی طرح آپ (احناف دوسرے ائمہ کے مقلدین) نے اس مسئلہ میں حضرت عمرؓکو چھوڑ رکھا ہے لہٰذا نہ ہم مانتے ہیں صحابہ کو نہ تم مانتے ہو صحابہ کو؟؟؟
حضرت علیؓ کا  ان کی بات کو نہ ماننا صاف دلیل ہے کہ اگر ایک  صحابی  کو ذرہ بھر بھی کوئی بات  ایسی محسوس ہو کہ سنت کے  خلاف ہے  وہ اس کو قطعاً نہیں  لیتا۔ اور جیسا کہ مسئلہ طلاق ثلاثہ یا مسئلہ تراویح ہے تو اس میں تو کسی ایک بھی صحابی سے یہ منقول نہیں کہ اس نے کہا ہو عمرؓ ہم تمہاری بات نہیں مانتے یا اتنا ہی ثبوت مل جاتا ہو کہ جب حضرت عمرؓ نے 20 رکعت تراویح مسجد میں لے آئے تو  کوئی ایک ہی اور صرف ایک ہی صحابی نے کھڑے ہو کر فرمایا ہو عمرؓ ہم تمہاری بات نہیں مانتے یا اپنی الگ جماعت کھڑی کر دی ہو یا  کچھ بھی ایسا  کہا ہو صحابہ نے جس سے غیرمقلدین نے اپنی دلیل پکڑی بھی ہو اور حضرت عمرؓ  کی مخالفت بھی کی ھو  تو وہ  غیرمقلدین ہمیں پیش کریں؟؟؟
 ورنہ غیرمقلدین  میں اور تقیہ باز رووافض میں کوئی فرق نہیں۔
اور ہمیں بتائیں جس طرح یہاں  حضرت علی ؓ نے حج تمتع  میں   ایک بات  کو سنت کے خلاف محسوس کرنے پر اس کے ماننے  کو تیار  نہ ہوئے وہ کیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ میں حضرت عمرؓ کے فیصلہ کو مان گے ( جیسا غیرمقلدین کہتے  ہیں)   حضرت علی ؓ کے تو تقریباً 8 فیصلے موجود ہیں جس میں انہوں نے   اکھٹی تین طلاق کو تین ہی شمار کیا ہے۔ اور ایک بھی ایسا فیصلہ صحیح تو کجا ضعیف بھی موجود نہیں جس  میں انہوں نے ذرہ بھر بھی کوئی مخالفت کی ہو یا اکھٹی تین طلاق کو ایک کہا ہو۔غیرمقلدین ہمیں ان کا ایک ہی فیصلہ لا دیں؟؟؟
تیسرا سوال،  مسئلہ تراویح کے متعلق خود  حضرت عمر ؓ، عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے دور خلافت میں 20 رکعت تراویح پڑھی جاتی تھی۔(السنن اکبریٰ جلد۲ ص۶۹۹،)
اب غیرمقلدین ہمیں بتائیں کیا یہ صحابہ کرامؓ سنت کی مخالفت کر رھے تھے معاذ اللہ؟ جیسا کہ  غیرمقلدین کی کتابوں میں ملتا ہے۔ ”بیس رکعت تراویح سنت نہیں بلکہ بدعت ہے۔۔۔۔ اور کسی صحابی نے نہیں پڑھی“۔(مذھب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف ص۶۹) لعنت اللہ علی الکاذبین، اور ایک  حوالہ پیش کر دیں کہ  کسی ایک صحابی نے اسے بدعت کہہ کر ترک کیا ہو جیسے غیرمقلدین نے ترک کر رکھا ہے۔
اور اسی طرح طلاق میں جیسا کہ غیرمقلدین  نے اپنا یہ نظریہ گھڑ رکھا ہے  کہ حضرت عمرؓ نے ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کرنے کا فتویٰ دیا، ہم یہ کہتے ہیں اگر آپ کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ اکھٹی تین طلاق ایک  تھی اور حضرت عمرؓ  نے اسے ایک سے تین شمار کروائیں تو پھر بھی  ہمیں صرف ایک ہی اور ایک صحابی سے پیش کر دیں  جنہوں نے صرف اتنا ہی کہا ہو کہ ہم نہیں مانتے یا ہم  محمدی ہیں عمری   اور عمری کفر ہے  معاذ اللہ جیسا غیرمقلدین نے اپنی کتاب میں کہا ہے۔(حدیث خیر و شر صفحہ ۱۱۰)لیکن  حضرت عمرؓ پر غیرمقلدین کا بھتان ہے کیونکہ یہ مسئلہ اجتہای ہو ہی نہیں سکتا نہ اس میں کسی قسم کی کوئی گنجائش ہے بلکہ جو اختلاف ہمارے بیچ ہے  مسئلہ طلاق ثلاثہ پر اس میں کوئی اجتہاد کرنے کی کوشش کرے تو کھلا کافر اور مرتد ہے کیونکہ یہ  انتہائی نازک مسئلہ ہے اور اس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش بھی نہیں۔ غیرمقلدین حضرات مسلم  شریف کی  ایک غیر صریح  روایت پیش کرتے ہیں جس کا جواب سلف صالحین سے قوی منقول ہے تفصیل کیلئے کتاب دیکھئے (حرام کاری سے بچیئے از  مولانا منیر احمد منور حفظ اللہ)
 ہم غیرمقلدین سے پوچھتے ہیں حج تمتع کے متعلق تو صحابہ سے منقول روایت مل جاتی ہیں جنہوں نے ذرہ بھر بھی محسوس کیا  تو نہیں مانا۔ ہمیں ان مسائل کے متعلق بھی ایک کوئی صحابی لا دیں جس سے  آپ  نے  اپنی دلیل پکڑی ہو؟؟؟
 اور یاد رھے مسئلہ طلاق ثلاثہ پر فرقہ نام نھاد اہل حدیث کے پاس ایک بھی صحیح ، صریح حدیث موجود نہیں جس میں راوی شیعہ نہ ہو اور اس روایت کرنے والے صحابی کا اپنا فتویٰ اور مسئلہ اس کے خلاف نہ ہو ایک بھی ایسی حدیث موجود نہیں جس میں یہ چاروں باتوں 
کا خیال ہو۔
فرقہ نام نہاد ااہل حدیث کی ایک دلیل مسلم شریف اور اس کا جواب نیچے کلک کیجئے۔۔۔

  

Masla Talaq E Salasa Par Firqa Jadeed Nam Nihad Ahle Hadees Ko Muslim Shareef Ki Hadees Ka Jawab





مسئلہ طلاق ثلاثہ پر فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کو مسلم
 شریف کی حدیث کا جواب1 

مسئلہ طلاق ثلاثہ صحیح مسلم کی حدیث قرآن حدیث اور تمام صحابہ کے مطابق  قوی اور راجح معنی

صحیح مسلم میں موجود حدیث کہ رسول اللہﷺ اور ابو بکرؓ کے دور میں تین طلاق ایک ہوتی تھیں۔۔۔،  اس حدیث میں کہیں ایک مجلس  کو خاص نہیں کیا گیا کہ وہ طلاق ایک مجلس میں ہوتی تھی جس سے یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ یہ  حدیث مدخولہ اور غیر مدخولہ دونوں کیلئے بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے برعکس یہ حدیث صرف  غیر مدخولہ عورت کیلئے ہے۔ چنانچہ  سنن نسائی میں امام نسائی اس حدیث پر غیرمدخولہ کیلئے طلاق کا باب باندھتے ہیں، اور خود سنن ابی داؤد میں یہ حدیث مکمل موجود ہے۔

حضرت طاؤس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابوالصہباء نامی ایک شخص حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کثرت سے مسائل پوچھا کرتا تھا ایک دن اس نے پوچھا کہ کیا آپ کو اس بات کا علم ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی عہد خلافت میں جب کوئی شخص دخول سے قبل عورت کو تین طلاقیں دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار ہوتی تھی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا ہاں مجھے معلوم ہے جب کوئی شخص دخول (جماع) سے قبل عورت کو طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی عہد رسالت میں عہد صدیقی میں اور عہد فاروقی کے ابتدائی دور میں لیکن جب عمر فاروق نے یہ دیکھا کہ لوگ کثرت سے تین طلاقیں دینے لگے ہیں تو انہوں نے فرمایا میں ان تینوں کو ان پر نافذ کروں گا ۔(یعنی کہ تینوں  طلاقیں واقع ہو رہی ہیں لہذا  یہی نافذ  بھی ہوں گی) (سنن ابی داؤد جلد۲ حدیث۴۳۵سندہ صحیح)۔
اگر اس حدیث میں غیر مدخولہ کی تصریح نہ بھی ہوتی تب بھی قرآن حدیث تمام صحابہؓ  اور سلف میں سے اہلسنت 99 فیصد اسی بات کے قائل ہیں،اس کے مقابلے میں دنیا کوئی ایک بھی صحیح اور صریح حدیث موجود ہی نہیں جس میں شیعہ، بدعتی اور کذاب راوی  بھی نہ ہو اور یہ ہوکہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہیں۔ صرف ساتویں صدیق ہجری میں ابن تیمیہ ؒ اور ابن قیمؒ نے اہلسنت سے اختلاف کر لیا تھا، جس پر انہیں سخت سزائیں بھی ملیں تھیں، اور خود حنبلی علماء نے ان کے اس غلط فتوے کا رد بھی کر دیا تھا۔ خود غیرمقلدین نے بھی اس کا اقرار کیا ہے  کہ انہیں کس قدر سخت سزا ملی دیکھئے (فتاویٰ ثنائیہ جلد2 ص219)
قرآن اور حدیث کا مسئلہ یہ ہے کہ غیرمدخولہ عورت جس سے نکاح  تو ہو گیا ہے لیکن شوہر نے ہمبستری نہیں کی اس کی عدت نہیں ہوتی، اس کو صرف ایک مرتبہ ”طلاق“ کہنے سے وہ عورت نکاح سے نکل جاتی ہے لیکن حرام نہیں ہو جاتیجس طرح مدخولہ عورت کو تین طلاقیں دے دینے  سے وہ حرام ہو جاتی ہے اور  دوبارہ اسی مرد سے نکاح نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی غیر مدخولہ کو تین مرتبہ کہے کے ”طلاق طلاق طلاق “تو بھی پہلی سے وہ نکاح سے نکل جائے گی باقی دو لغو اور بیکار ہوں گی۔ لیکن اگر غیر مدخولہ کو بھی اکھٹی تین طلاق دے دے کہ ”تجھے تین طلاق “تو اس پر   وہ تینوں طلاقیں پڑھ جائیں گی اور وہ عورت نکاح سے بھی نکل جائے گی اور حرام بھی ہو جائے گی دوبارہ اسی مرد سے نکاح نہیں کر سکتی جیسا کہ تین طلاق کے بعد عورت حرام ہو جاتی ہے اور اسی مرد سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتی۔
عہد نبیﷺ  میں اور ابو بکر صدیقؓ کے دور میں اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی دور میں لوگ اپنی غیرمدخولہ بیوی کو جدا کرنے کیلئے اکھٹی تین طلاق کی بجائے اس طرح سے طلاق دیتے تھے ”تمہیں طلاق “ یا پھر ” تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق“جس سے وہ پہلی طلاق سے بائن ہوجاتی تھی باقی دو لغو ہوجاتی تھی ایک طریقہ غیر مدخولہ کیلئے یہ تھا جو کہ صحیح تھا ، بیوی جدا بھی ہو جاتی تھی اور اگر دورباہ نکاح کرنا چائے تو بھی اسی شور سے نکاح کر سکتی تھی  اور غیرمدخولہ پر کوئی عدت بھی باقی نہیں رھتی ہے، لیکن جیسے جیسے اسلام پھیلاتا چلا گیا نئے نئے لوگ مسلمان ہونے لگے تو اس کام میں انہوں نے جلد بازی سے کام لینا شروع کردیا لاعلمی کی وجہ سےاپنی غیرمدخولہ بیوی  کو بھی جدا کرنے کیلئے ”انت طلاق انت طلاق انت طلاق “کی بجائے اکھٹی تین طلاق دینی شروع کر دیں جس کا نقصان یہ ہوا کہ بیوی بھی جدا ہو گئی دوبارہ اس سے نکاح بھی نہیں ہو سکتا (اگر کرنا چاہے) جب تک دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے اور ہمبستر نہ ہو جائے،اب اس کا حکم بھی یہی تھا کہ اگر اکھٹی تین طلاق دے دیں تو تین واقع ہو جائیں گی یہ مسئلہ صحابہ کو اچھی طرح یاد تھا، لہذا صحابہ کرامؓ نے لوگوں کی اسطرح سے (یعنی غیرمدخولہ کو اکھٹی) دی گئی طلاق کو تین ہی واقع کیا۔ عہد فاروق میں بھی  غیرمدخولہ کو ”انت طلاق انت طلاق انت طلاق “کہہ کر دی گئی طلاق سے وہ پہلی سے ہی بائن ہو جاتی تھی اور باقی دو لغو، لیکن جو لوگ اکھٹی دینے لگے کثرت سے تو ان پر وہ تینوں واقع ہو جانے کی صورت میں  انہوں باخبر کر دیا گیا، اور یہی ہم آج بھی کہتے ہیں۔
”انت طلاق انت طلاق انت طلاق “کہہ کر دی گئی طلاق سے آج کے زمانہ میں بھی غیرمدخولہ بیوی پہلی سے بائن ہو جاتی ہے اور  باقی لغو ہوجاتی ہیں، اور یہی عہد نبیﷺ میں رہا پھر عہد صدیقی میں رہا لیکن پھر لوگوں نے طلاق دینے کا طریقہ بدل دیا تو قرآن و سنت کی روشنی میں ان پر تین طلاق واقع ہو جانے کی صورت میں انکو آگاہ کر دیا گیا، کہ اب جیسا کہ لوگ اتنی جلد بازی میں طلاق دے رہے ہیں تو یہ واقع ہو گئی ہیں تمہاری عورتوں پر ، اور حلال نہیں جب تک کسی دوسرے سے نکاح نہ کرلیں۔ ”اور انت طالق انت طالق انت طالق“ سے اپنی غیر مدخولہ بیوی کو دی گئی طلاق اسی طرح رہے گئی یعنی پہلی سے بائن اور باقی دو لغو، یہ تمام کی تمام چیزیں قرآن و سنت صحابہ و تابعین سے  اور اجماع امت تک سب سے ثابت ہیں۔
ٓٓٓ----------------------------------------------------
جواب نمبر 2

غیرمدخول بہا عورت (جس سے نکاح ہو گیا مگر ہمبستری نہیں ہوئی) کو ایک  مرتبہ طلاق کہنا ہی نکاح سے نکال دیتا ہے اور 
اکھٹی تین دینے کی صورت میں  تینوں واقع ہو جاتی ہیں اور وہ حرام ہو جاتی ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُزَكِّي، نا أَبُو الْعَبَّاسِ، أنا الرَّبِيعُ، أنا الشَّافِعِيُّ، أنا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللهِ بْنَ الْأَشَجِّ أَخْبَرَهُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ قَالَ: فَجَاءَهُمَا مُحَمَّدُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ فَقَالَ: إِنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا فَمَاذَا تَرَيَانِ فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: " إِنَّ هَذَا لَأَمْرٌ مَا لَنَا فِيهِ قَوْلٌ اذْهَبْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ فَإِنِّي تَرَكْتُهُمَا عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فَسَلْهُمَا ثُمَّ ائْتِنَا فَأَخْبِرْنَا فَذَهَبَ فَسَأَلَهُمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: أَفْتِهِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَقَدْ جَاءَتْكَ مُعْضِلَةٌ , فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ " الْوَاحِدَةُ تُبِينُهَا وَالثَّلَاثُ تُحَرِّمُهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ " وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مِثْلَ ذَلِكَ
ترجمه:۔
حضرت معاویہ بن ابی عیاش انصاریؒ فرماتے ہیں کہ  میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور عاصم بن عمروؒ کی مجلس یں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں حضرت محمد بن ایاس بن بکیرؒ تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ ایک دیہاتی گنوار نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی (جس سے ابھی تک ہمبستری نہیں کی گئی) کو تین طلاقیں دے دی ہیں اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ حضرت عبداللہؓ بن زبیرؓ نے فرمایا جا کر عبداللہؓ بن عباسؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ سے پوچھو میں ابھی ان کو حضرت عائشہؓ کے پاس چھوڑ کے آیا ہوں مگر جب ان سے سوال کر چکو تو واپسی پر ہمیں بھی مسئلہ سے آگاہ کرنا جب سائل ان کے پاس حاضر ہوا  اور دریافت کیا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہؓ فتویٰ دیجئے لیکن سوچ سمجھ کر بتانا کیونکہ مسئلہ پیچیدہ ہے حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک طلاق اس سے علیحدگی کیلئے کافی تھی اور تین طلاقوں سے وہ اس پر حرام ہو گئی ہے،” حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ“(الایة) ”حتی کہ  کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے “۔ اور حضرت ابن عباسؓ نے بھی  یہی فتویٰ دیا۔
(السنن الكبري للبيهقي جلد7 ص549 ، جامع الاصول جلد7 ص599؛صحیح)
ملاحظہ کیجئے حضرت ابو ہریرہؓ قرآن کریم سے استدلال کر رہے ہیں نہ کسی کے قول سے اگر حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ ہوتا تو پھر قران کریم کیوں پیش کرتے؟؟؟


مسئلے کی وضاحت 

غیرمدخول  بہا عورت   صرف اکھٹی تین طلاق دینے سے ہی حرام ہوتی ہے اس پر تین طلاق واقع ہونے کی یہی صورت ہے جب اسے اکھٹی تین طلاقیں دیں جائیں کہ”تجھے تین طلاق“ اور اگر غیرمدخولہ کو اسطرح صرف ایک مرتبہ ”طلاق “ یا  پھر”طلاق ، طلاق ، طلاق“ کہہ کر طلاق دی جائے تو پہلی بار طلاق کہنے سے ہی  اس پر طلاق پڑھ جاتی ہے اور دوسری دو طلاق کیلئے وہ  عورت اجنبی ہوجاتی ہے لہذا وہ دو بیکار جاتی ہیں ،اور  اس ایک طلاق کے بعد غیرمدخولہ عورت حرام نہیں ہوتی دوبارہ اسی مرد سے نکاح کر نے کی گنجائش موجود ہے یہ درست طریقہ ہے۔ یہی معاملہ حضورؐ کے دور میں رہا  کہ جب غیرمدخولہ کو  اگر کوئی اس طرح سے تین طلاق دے دیتا تو وہ  پہلی طلاق پڑتے ہی وہ عورت اس کیلئے اجنبی ہو جاتی پھر باقی دو مرتبہ طلاق کہنا  ایسا ہی ہوتا جیسے کوئی کسی اجنبی عورت کو طلاق کہے اسی لئے یہ فضول جاتیں،(یہ مسئلہ کبھی نہیں بدلہ گیا حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کے دور میں  بھی ایسا ہی رہا    اب بھی ایسا ہی ہے) لیکن جب غیرمدخولہ کو بھی اکھٹی تین طلاق”تجھے تین طلاق“ کہہ کر طلاق دی جائے تو اس عورت پر پوری تین طلاق پڑ جاتی ہیں وہ عورت تین طلاق کے بعد کی طرح حرام بھی ہوجاتی ہے اسی مرد سے دوبارہ نکاح کرنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ حضرت عمرؓ کے دور میں جیسے جیسے   اسلام  دور دور تک پھیلتا گیا نئے نئے مسئلےپیدا ہوتے گئے لوگوں کی کثر ت صحیح مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سےاپنی غیر مدخول بہا  بیوی کو بھی اکھٹی تین طلاق دے کر جدا کرنے لگی  تو اب طلاقیں تو تین ہی واقع ہو رھی تھیں تو حضرت عمرؓ نے بھی اسی کو نافظ کر دیا  اور لوگوں کو آگاہ کر دیا  کہ غیر مدخولہ بھی اکھٹی تین طلاق کے بعد حرام ہو جاتی ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ غیرمدخولہ کو  جس طرح الگ الگ کرکے تین طلاق دینا ایک شمار ہوتا ہے ایسے ہی اکھٹی  تین دینا بھی ایک شمار ہو گا۔
آل وکٹوریہ کی کمر یہیں ٹوٹ جاتی ہے مسلم کی حدیث میں ایک مجلس  کا یا  اکھٹی طلاق دینے کا کوئی ذکر نہیں۔
ہمارے ان وکٹورینوں سے دو سوال
1
زید نے کہیں سے سنا کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ابو بکر صدیقؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانہ میں تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ،،،،،، اس نے اپنی بیوی کو ایک طلاق صبح ایک دوپہر اور ایک شام کو دے دی اب یہ کتنی طلاقیں شمار ہوں گی۔
وہ کہتا ہے ایک شمار ہو گئی کیونکہ مسلم کی حدیث ہے کہ اس زمانے میں تین ایک ہوتی تھیں آپ بتائیں 
کتنی شمار ہوں گے۔
2
زید کو ایک وکٹورین مفتی نے یہ سنایا کہ حضورﷺ کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک ہوتی تھیں۔ اس نے اپنی بیوی کو کہہ دیا تھا تجھے ۹ طلاق ۔ اب زید اور مفتی صاحب میں جھگڑا ہے۔ زید کہتا کہ یہ تین ہیں اور مسلم کی حدیث سناتا ہے، مفتی صاحب کو حساب نہیں آتا۔ مفتی کہتا ہے ایک ہے۔ آپ بتائیں یہ کتنی طلاق ہیں ؟
-----------------------------------------------------------
مسئلہ طلاق ثلاثہ حضرت عمرؓ اپنے فتوے سے نادم تھے ایک جھوٹی کہانی
MASLA TALAQ E SALASA HAZRAT UMER RA APNY FATWAY SY NADM THY AK JHOOTI KAHANI
 

3 جواب 
سلف صالحین نے ہمیں کہیں بھی لا جواب نہیں رھنےدیا اس کے اور بھی جوابات ہیں
ملاحظہ کیجئے ایک اور جواب

 اسحاق بن ابراہیم، محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ابن طاو س، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دور خلافت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو سال تک تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھیں سو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس حکم میں جو انہیں مہلت دی گئی تھی جلدی شروع کر دی ہے پس اگر ہم تین ہی نافذ کردیں چنانچہ انہوں نے تین طلاق ہی واقعہ ہو جانے کا حکم دے دیا۔۔ (مسلم شریف)
پہلے کچھ بنیادی باتوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
٭٭٭۔ اس رویت میں مجلس واحد کا ذکر نہیں۔
(کیونکہ اسی روایت سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے تین مجالس کی تین طلاق کو شمار کیا جو حضورﷺ حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ میں ایک تھیں۔ جیسے غیرمقلدین کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین شمار کیا جو کہ حضورﷺ حضرت ابو بکرؓ کے اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی دور میں ایک تھیں۔ لیکن دونوں باتیں غلط ہیں۔ نہ تو حضورﷺ کے زمانہ میں تین مجالس کی تین طلاق ایک ہوتی تھی نہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہوتی تھی۔ روایت کی بحث اگے چل کر آئے گی۔)
٭٭٭۔ محدثین نے اس میں کلام کیا ہے۔
٭٭٭۔ اس یں یہ بھی تفصیل نہیں کہ ان مقدمات کا فیصلہ حضورﷺ اور شیخین کے سامنے تھا۔
٭٭٭۔ ابن عباسؓ کی اس حدیث پر محدثین نے اور کئی وجہ سے کلام کیا ہے۔
٭٭٭۔ غیرمقلدین کے علماء کی یہ تحقیقی ہے کہ ”اصل بات یہ ہے کہ صحابہ ؓ تابعین و تبع تابعین سے لے کر سات سو سال تک کے سلف صالحین صحابہؓ و تباعین و محدثین سے تو تین طلاق کا ایک مجلس میں واحد شمار ہونا ثابت نہیں“۔ (((فتاویٰ ثنایہ ج
۲ ص۲۱۹)))
٭٭٭۔ محدثین نے مسلم کی حدیث مذکور کو شاذ بتایا ہے۔
٭٭٭۔ غیرمقلد علماء کی ہی تحقیق میں یہ بات ہے کہ ” اس حدیث میں اضطراب ہے“۔(((فتاویٰ ثنایہ جلد
۲ ص۲۱۹)))
٭٭٭۔ یہ مذکور حدیث مرفوع نہیں ہے۔ کیونکہ یہ نہ قولی ہے نہ فعلی ہے نہ تقریری ہے.
*** حضرت ابن عباسؓ کا صحیح اور صریح فتاوئٰ اس کے خلاف ہیں۔

اب ھم غیرمقلدین سے پوچھتے ہیں

زید کو ایک مفتی نے یہ سنایا کہ حضورﷺ کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک ہوتی تھیں۔ اس نے اپنی بیوی کو کہہ دیا تھا تجھے
۹ طلاق ۔ اب زید اوور مفتی صاح ب میں جھگڑا ہے۔ زید کہتا ہے کہ یہ تین ہیں ، مفتی صاحب کو حساب نہیں آتا۔ مفتی کہتا ہے ایک ہے۔ آپ بتائیں یہ کتنی طلاق ہیں کیا یہ ممکن ہیں یا نہیں،،،،،، آپ کا اس روایت سے مجلس واحد مراد لینا بے دلیل بات ہے اور انصاف کے خلاف ہے جبکہ اس سے اور مراد بھی لئے جاسکتے ہیں اس حلال حرام کے مسلے میں۔
۔ امام نووی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”فاختلف العلماء فی جوابہ وتاویلہ فالاصح ان معناہ انہ کان فی اول الامر اذا قال لہا انت طالق، انت طالق، انت طالق، ولم ینو تاکیداً ولااستینافاً یحکم بوقوع طلقة لقلة ارادتہم الاستنیاف بذلک فحمل علی الغالب الذی ہو ارادة التاکید فلما کان فی زمن عمر وکثر استعمال الناس بہذہ الصیغة وغلب منہم ارادة الاستیناف بہا حملت الاطلاق علی الثلاث عملاً بالغالب السابق الی الفہم“ (نووی شرح مسلم ج:۱/۴۷۸ ط قدیمی)؛

یعنی حدیث حضرت ابن عباس کی بالکل صحیح تاویل اور اس کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی انت طالق، انت طالق، انت طالق (یعنی تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق) کہہ کر طلاق دیتا تو عموماً اس زمانہ میں دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی نیت ہوتی تھی، استیناف کی نیت نہ ہوتی تھی، جب حضرت عمر کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کی دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی، اس لئے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم کیا جاتا۔

ایک بات سمجھیں ایک یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے تجھے تین طلاق ، یہ تین کا ہندسہ واضح ہے اس کا معنی قطعاً ایک نہیں ہوتا ۔ تین کا معنی دو نہیں ہو سکتا، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے طلاق، طلاق،طلاق اس میں دو نیتیں ہو سکتی ہیں ۔ تاکید کی نیت بھی ہو سکتی ہے۔ اور ہر مرتبہ طلاق کی نیت بھی ہو سکتی ہے۔

اس کو مثال سے سمجھیں ایک بچہ شور مچا رہا ہے سانپ سانپ سانپ سانپ اس سے کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ اس بچہ نے چا دفعہ سانپ کہا ہے لہذا سانپ چار ہیں، اگگر بچہ نے پانچ مرتبہ کہا تو سانپ پانچ ہیں نہیں بلکہ بچہ سے پوچھتے ہیں سانپ کتنے ہیں ؟ وہ کہتا ہے ایک، کیونکہ یہ لفظ تاکید کے لئے بھی ہو سکتا ہے۔ لوگ شور کر رہے ہیں چور چور چور چور لیکن ان الفاظ سے یہ پتا نہیں چلے گا کہ چور ہیں کتنے پوچھنا پڑے گا، لیکن اگر کوئی پہلے ہی یہ کہہ رہا ہو دو سانپ، دو سانپ دو سانپ اب کوئی بے وقوف ہی پوچھے گا کہ کتنے سانپ ہیں اگر کوئی کہہ رہا ہو تین چور تین چور کیا اب بھی کوئیپوچھے گا کہ تین کا کیا مطلب ؟ نہیں کیونکہ تین کا عدد واضح ہے۔

شارح_مسلم امام نووی (
٦٣١-٦٧٦ھ ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: المراد أن المعتاد في الزمن الأول کان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر رضي اللہ عنہ یوقعون الثلاث دفعة فنفذہ فعلی ھذا یکون إخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغیر حکم في مسئلة واحدة

. یعنی مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ کیا تو اس طور پر یہ حدیث لوگوں کی "عادتوں" کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ واحدہ میں "حکم" کے بدلنے کی اطلاع ہے۔ (شرح مسلم: ج
۱ ص۴۷۸)؛
حضور اکرم ا اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کے ابتدائی زمانہ میں جب ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہا جاتا تو عموماً لوگوں کی دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی نیت ہوتی، استیناف کی نیت نہیں ہوتی تھی اور اس زمانہ میں لوگوں میں دین اور تقویٰ اور خوف آخرت اور خوف خدا غالب تھا دنیا کی خاطر دروغ بیانی کا خطرہ تک دل میں نہ آتا تھا۔ آخرت میں جوابدہی اور آخرت کے عذاب کا اتنا استحضار رہتا کہ مجرم بذات خود حاضر ہوکر اپنے جرم کا اقرار کرتا اور اپنے اوپر شرعی حد جاری کرنے کی درخواست کرتا، اس بناء پر ان کی بات پر اعتماد کرکے ایک طلاق کا حکم کیا جاتا، اسی اعتبار سے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اس زمانے میں تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں مگر جیسے جیسے عہد نبوی سے بعد ہوتا گیا اور بکثرت عجمی لوگ بھی حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے، ان میں تقویٰ وخوف آخرت کا معیار کم ہونے لگا اور پہلے جیسی سچائی، امانت داری اور دیانت داری نہ رہی، دنیا اور عورت کی خاطر دروغ بیانی ہونے لگی، جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے۔

حضرت عمر کے پاس عراق سے ایک سرکاری خط آیا کہ یہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کو یہ جملہ کہا ہے ”حبلک علی غاربک“ (تیری رسی تیری گردن پر ہے) حضرت عمر بن خطاب نے اپنے عامل کو لکھا کہ ”ان مرہ ان یوافینی بمکة فی الموسم“ اس کو کہو کہ حج کے زمانہ میں مکہ مکرمہ میں مجھ سے ملے۔ حضرت عمر حج کے زمانہ میں کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ اس آدمی (عراقی) نے آپ سے ملاقات کی اور سلام کیا، حضرت عمر نے فرمایا: تم کون ہو، اس نے کہا: میں وہی ہوں جس کو آپ نے حج کے زمانہ میں طلب کیا تھا، حضرت عمر نے فرمایا: تجھے رب کعبہ کی قسم سچ بتا ”حبلک علی غاربک“ سے تیری کیا نیت تھی، اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ نے اگر اس مبارک جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ قسم لی ہوتی تو میں صحیح نہ بتاتا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس جملے سے فراق کا یعنی عورت کو اپنے نکاح سے الگ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا: عورت تیرے ارادے کے مطابق تجھ سے علیحدہ ہوگئی۔
(موطأ امام مالک ص:
۵۱۱ ماجاء فی الخلیة والبریة واشباء ذلک بحوالہ فتاویٰ رحیمہ ۴/۳۴۳)؛

یہ عراقی ایک عورت کے لئے جھوٹی قسم کھانے کے لئے اور دروغ بیانی کے لئے تیار تھا مگر کعبة اللہ اور حرم شریف کی عظمت وتقدس کا خیال رکھتے ہوئے کذب بیانی سے احتراز کیا۔
حضرت عمر نے عوام کی جب یہ حالت دیکھی، نیز آپ کی نظر اس حدیث پر تھی؛

”اکرموا اصحابی فانہم خیارکم، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم یظہر الکذب حتی ان الرجل یحلف ولایستحلف ویشہد ولایستشہدالخ“۔ (مشکوٰة المصابیح، باب مناقب الصحابة ج:۳/۵۵۴ ط سعید)؛

یعنی عہد نبوت سے جیسے جیسے دوری ہوتی چلی جائے گئی، دینداری کم ہوتی رہے گی اور کذب ظاہر ہو گا۔ حضرت عمر نے موجودہ اور آئندہ حالات کو پیش نظر رکھ کر صحابہ سے مشورہ کیا کہ جب ابھی یہ حالت ہے تو آئندہ کیا حالت ہوگی اور لوگ عورت کو الگ کردینے کی نیت سے تین طلاق دیں گے اور پھر غلط بیانی کرکے کہیں گے کہ ہم نے ایک طلاق کی نیت کی تھی۔ آپ نے اس چور دروازے کو بند کرنے کے لئے فیصلہ کیا کہ لوگوں نے ایسی چیز میں جلد بازی شروع کردی جس میں انہیں دیر کرنی چایئے تھی، اب جو شخص تین مرتبہ طلاق دے گا، ہم اسے تین ہی قرار دیں گے۔ صحابہ کرام نے اس فیصلہ سے اتفاق کیا اور کسی ایک نے بھی حضرت عمر کی مخالفت نہ کی۔

ایک  اعتراض اور اس کاجواب۔۔۔

Top of Form